اہم ترین

پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ عام شہریوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کے لیے تھا۔

بی بی سی کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سہریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 233 کے دو حصے ہیں، ایک آرمڈ فورسز کا اور دوسرا سویلینز کا۔عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل آٹھ، پانچ اور آٹھ، تین ہےجو مختلف ہیں، ان کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا کہ عام شہری کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، جرم سرزد ہوتے وقت وہ ریٹائر نہیں تھے، اس لیے ان کا کیس الگ ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے موجودہ کیس میں نو مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے۔ آرمی ایکٹ میں سیویلنز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے یا نہیں یا کیا یہ صرف مخصوص شہریوں کے لیے تھا؟

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے، وہ قانون بنائے کہ کیا کیا چیز جرم ہے۔ پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے۔ اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داری ہے۔ آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ عام شہریوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کے لیے تھا، کیا تمام عام شہریوں کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے آرمی پبلک اسکول سانحہ میں کیا گیا؟ کیا جب آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو کیا سارے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں؟ پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

پاکستان