بھارتی کرکٹر روی چندرن ایشون اپنی ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد اپنے بیان کی وجہ سے دوبارہ خبروں میں ہیں۔ اس بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی بھی ان کے خلاف میدان میں کود پڑی ہے۔
روی چندرن ایشون نے چند روز قبل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر کرکٹ کی دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ وہ ایک بار پھر خبروں میں ہیں لیکن اس بار موضوع بحث کرکٹ سے نہیں بلکہ سیاست سے متعلق ہے۔ دراصل انہوں نے ہندی زبان کے حوالے سے ایسا تبصرہ کیا ہے جس کی وجہ سے گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس معاملے پر بی جے پی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی میدان میں آگئی ہیں۔
آر اشون نے حال ہی میں کالج کے ایک پروگرام میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے انجینئرنگ کیریئر سے متعلق مختلف موضوعات پر بات کی۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے طلباء سے کہا کہ اگر کوئی طالب علم انگریزی یا تمل میں سوال پوچھنے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو وہ ہندی میں بھی سوال پوچھ سکتا ہے۔ جب اشون نے انگریزی کا ذکر کیا تو سبھی خاموش رہے، لیکن تمل سن کر طلباء خوشی سے اچھل پڑے۔ ہندی کا نام آتے ہی ماحول پر سکون ہو گیا۔ پھر اشون نے کہا، “مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہندی ہماری قومی زبان نہیں ہے، یہ صرف ایک سرکاری زبان ہے۔
ہندی زبان کا مسئلہ تامل ناڈو میں کئی دہائیوں سے متنازع رہا ہے۔ 1930-40 کی دہائی میں جب تمل ناڈو کے اسکولوں میں ہندی زبان کو لازمی کرنے کا مسئلہ اٹھایا گیا تو اس کی کافی مخالفت ہوئی تھی۔ انٹرنیٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تمل ناڈو میں 1 فیصد سے بھی کم لوگ ہندی بولتے ہیں، جب کہ تمل بولنے والوں کا فیصد تقریباً 88 فیصد ہے۔
تمل ناڈو کی علاقائی سیاسی جماعت ڈی ایم کے کے رہنما ٹی کے ایس ایلنگوون نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ جب ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو پھر ہندی سرکاری زبان کیسے ہوسکتی ہے؟
دوسری جانب بی جے پی لیڈر اوما آنندن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ڈی ایم کے اس کی تعریف کر رہی ہے۔ میں اشون سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ تمل ناڈو کے کرکٹر ہیں یا ہندوستان کے کرکٹر۔ اس کے علاوہ بی جے پی لیڈر کے اناملائی نے بھی کہا کہ اشون یہ کہنے میں درست ہیں کہ ہندی قومی زبان نہیں ہے، لیکن انہیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ یہ رابطے کی زبان تھی اور اب اسے سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔