اہم ترین

کانٹینٹ کری ایٹرز اب اپ لوڈ کئے بغیر بھی ویڈیوز سے پیسے کمانے لگے

اے آئی کمپنیاں یوٹیوبرز اور کانٹینٹ کری ایٹرز کو ان کی اپ لوڈ نہ کی گئی ویڈیوز کے لیے بھاری رقم ادا کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کو اے ماڈلز کی تربیت کے لیے ایسی ویڈیوز کی ضرورت ہے

یوٹیوبرز لوگوں کو اپنی ویڈیوز دکھا کر پیسے کما رہے ہیں۔ اب وہ ویڈیوز شائع کیے بغیر بھی ان سے کافی پیسے کما رہے ہیں۔ بہت سے یوٹیوبرز اور ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والے اپنی غیر استعمال شدہ یا شائع شدہ ویڈیوز اے آئی کمپنیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔

اوپن اے آئی، گوگل اور مون ویلی سمیت کئی اے آئی کمپنیاں اپنے الگورتھم کو تربیت دینے کے لیے یہ ویڈیوز خرید رہی ہیں۔ اس طرح کی ویڈیوز منفرد ہیں اور اے آئی سسٹم کی تربیت میں بہت کارآمد ہیں۔

اس معاملے سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ اے آئی کمپنیاں ایک منٹ کی ویڈیو کے لیے 4 امریکی ڈالرز تک ادا کر رہی ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 1100 راپے کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ اچھے معیار اور فارمیٹ والے ویڈیوز کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے لی گئی 4 کے ویڈیوز اور فوٹیج اعلیٰ کمیشن کا حکم دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ کے لیے بنائی گئی سادہ ویڈیوز تقریباً 150 روپے فی منٹ کی شرح سے خریدی جا رہی ہیں۔

ایڈوب، میٹا اور اوپن اے آئی سمیت کئی کمپنیوں نے گزشتہ سال اے آئی ویڈیو جنریٹرز لانچ کیے تھے۔ یہ متن کے مطابق حقیقت پسندانہ نظر آنے والی ویڈیو فوٹیج تیار کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ان کمپنیوں کو بھاری مقدار میں ڈیٹا اور فوٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوڑ شروع ہو چکی ہے اور کمپنیوں کو اس میں آگے رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کی ضرورت ہے۔

اے آئی کمپنیاں فی الحال انٹرنیٹ سے تصاویر، ویڈیوز اور ٹیکسٹ لے کر اپنے اے آئی ماڈلز کو تربیت دے رہی ہیں۔ تخلیق کاروں کو معاوضہ دیئے بغیر اس مواد کو استعمال کرنے پر اے آئی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

پچھلے سال بہت سے پبلشرز، اداکاروں اور مواد کے تخلیق کاروں نے کچھ کمپنیوں کے خلاف کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور بغیر اجازت اپنا مواد استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔

پاکستان