اہم ترین

ڈیزائنر یا دھوکہ باز؟ معروف پاکستانی نژاد شوبز شخصیت محمود بھٹی پر نئے الزامات

معروف پاکستانی نژاد فیشن ڈئزائنر محمودبھٹی آج کل شدید تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایک وائرل یوٹیوب دستاویزی فلم میں ان پر تمام فریقین کےموقف اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جس کے بعد سوال اٹھنے لگا ہےکہ محمودبھٹی ڈیزائنر ہیں یا دھوکے باز؟؟

دستاویزی فلم میں محمود بھٹی کے انٹرویوز ، دعوؤں اور عدالتی چارہ جوئیوں کی بنیاد پر شدید نوعیت کے الزام عائد کئے گئے ہیں۔

فلم میں بتایاگیا ہے کہ محمود بھٹی کا اپنے ہی بھائی اور سینئر وکیل منیر بھٹی کے ساتھ لاہور کے ملتان روڈ پر زمین کی ملکیت سےمتعلق تنازع چل رہا ہے۔

محمود بھٹی نے اپنی کتاب “پیرس میں دوسرا جنم” میں اعتراف کیا کہ 1987 میں انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے بھائی کو زمین کا مختار نامہ دیا۔ 2002 میں انہوں نے منیر بھٹی کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کیا لیکن وہ ہار گئے۔ اگلے 20 سال تک محمودبھٹی نے مزید قانونی کارروائی نہیں کی۔2021 میں انہوں نے زمین کی ملکیت سے متعلق نیا دعویٰ کردیا۔

محمود بھٹی کی خودنوشت میں انہوں نے چوری، دستاویزات میں دھوکہ دہی، پیرس میں جسم فروشی کے دھندے اور 1970 کی دہائی میں گرفتاری سے بچنے کے لیے پاکستان سے فرارسمیت کئی اعتراف کئے ہیں۔

اپنی اسی کتاب میں محمودبھٹی نے کہا کہ ان کے والدین نہیں تھے۔ انہیں گود لےکر پالا گیا لیکن اب وہ اپنی والدہ کے نام پر ایک فلاحی ادارہ قائم کررہے ہیں۔ دستاویزی فلم میں ان کے اس تضاد کو بھی اجاگر کیا ہے۔

ماضی کے انٹرویوز میں، محمود بھٹی نے غیر ازدواجی جنسی تعلقات کی وکالت کرتے رہے ہیں جو اسلامی اقدار سے متصادم ہیں۔ یہ ان کی ساکھ کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اپنی ایک اور کتاب، “ری انکارنیشن آف ان ادر کائنڈ” میں اس نے یہاں تک اعتراف کیا کہ وہ ایک جسم فروش تھے، پیسوں کے عوض جنسی خدمات فراہم کرتے تھے۔

دستاویزی فلم میں کہا گیا ہے کہ محمود بھٹی بڑی چالاکی سے بلیک میلنگ اور زرد صحافت کا سہارا لیتا ہے۔ وہ فلاحی سرگرمیوں کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ ان کی جانب سے فلاحی کاموں کے لئے عطیہ کئے گئے فنڈز میں سے 13 کروڑ روپے کے خرد برد کا معاملہ بھی عدالت مسترد کرچکی ہے۔ اور تو اور محمود بھٹی کی موجودہ بیوی نے ان ہی کے خلاف بدسلوکی کا مقدمہ دائر کررکھا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ غیر تصدیق شدہ کہانیاں اتنی آسانی سے کیسے پھیل سکتی ہیں، اور ریاستی اعزازات بغیر مناسب جانچ پڑتال کے کیسے دیے جاتے ہیں؟سچ وہ نہیں ہے جو کوئی ٹیلی ویژن پر کہتا ہے۔ سچائی وہ ہوتی ہے جسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان