دنیا کی ٹیک انڈسٹری کے دو سب سے بڑے نام گوگل اور فیس بک نے ڈیٹا چوری میں بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ دونوں کمپنیاں کا بڑے پیمانے میں بچوں کی ایپس کا ڈٰیٹا چوری کرنے میں ملوث نکلی ہیں۔ اس انکشاف نے صارفین کی رازداری اور سلامتی کے بارے میں بھی سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
بین الاقوامی ڈیٹا سروس کمپنی ارراکا (Arrka) نے گیمز، ایجوکیشن ٹیک، اسکول، کوڈنگ اور چائلڈ کیئر سمیت کل 9 کیٹیگریز میں بچوں کی 60 اینڈرائیڈ ایپلی کیشنز کا احاطہ کرکے ڈیٹا چوری پر جامع اور ناقابل تردید رپورٹ جاری کی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انٹر نیٹ سرچ انجن نے ان ایپس میں سے 33 فیصد کا ڈیٹا چوری کیا ہے جب کہ فیس بک 22 فیصد ڈیٹا چوری میں ملوث نکلی ہے۔
ڈیٹا چوری کے اس گھناونے کام میں ایپس فلائیر (AppsFlyer ) اور ایپ لوان (AppLovin ) جیسی قدرے چھوٹی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ جن کا کل چوری میں 2 فیصد حصہ ہے۔
سروے میں شامل 85 فیصد ایپس کو کم از کم ایک “خطرناک اجازت” یا انتہائی حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت تھی، جس کا غلط استعمال بچوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس مطالعہ میں چھوٹے ڈیٹا وصول کنندگان جیسے اور کی شناخت کی گئی ہے۔ ان دونوں نے شناخت کیے گئے کل ٹریکرز میں سے تقریباً 2% حصہ ڈالا – جس نے مل کر 38% ڈیٹا حاصل کیا۔ مزید برآں، ۔
تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جن ایپس کا تجزیہ کیا گیا ان میں سے 73 کو صارفین کے محفوظ کی گئی فائلوں تک رسائی حاصل ہے۔ اسی طرح 46فیصد کو مائیکرو فون ، 43 فیصد کے پاس کیمرے ، 38 فیسد کے پاس فون کی تفصیلات ، 27 فیصد کے پاس رابطوں جب کہ 23 فیصد ایپس کو ۤپ کی موجودگی کی جگہ تک رسائی حاصل ہے۔
اسی طرح تقریباً دو تہائی چائلڈ کیئر اور ایڈٹیک ایپس کو بچوں کے مقام اور کیمرے کیمرے تک رسائی حاصل ہے۔ کم از کم بچوں کی 80 فیصد ایپس میں تجزیاتی ٹریکرز ایمبڈڈ تھے اور 54 فیصد میں ایڈ ٹریکرز تھے۔
اراکا کے شریک بانی اور سی ای او شیوانگی ناڈکرنی کے مطابق ایک طرف، ہم گزشتہ سال سے کئی ضوابط کے نفاذ کے ساتھ دنیا بھر میں بچوں کی پرائیویسی پر بڑھتی ہوئی توجہ دیکھ رہے ہیں، دوسری طرف یہ دیکھا جارہا ہے کہ کس طرح ببڑی بڑی ٹیک کمپنیاں ہمارے بچوں کا ذاتی ڈیٹا بغیر کسی اطلاع اور رہنما اصولوں کے چوری کررہا ہے۔