اہم ترین

باربی باکس ٹرینڈ سے ماحول کو خطرہ! خود کو ڈیجیٹل ڈول بنانے سے پہلے جان لیں

آج کل سوشل میڈیا پر آپ کو اپنے دوست یا رشتہ دار کسی ٹوائے باکس میں منی ورژن میں نظر آ رہے ہوں گے۔ یہ ہے بالکل نیا اے آئی ڈول جنریٹر ٹرینڈ، جس میں لوگ خود کو چھوٹے چھوٹے ایکشن فیگرز اور ڈولز کی صورت میں پیش کر رہے ہیں، وہ بھی بالکل باربی یا سپر ہیرو باکس اسٹائل میں۔ یہ ٹرینڈ صرف عام صارفین تک محدود نہیں ہے۔ بڑے بڑے برانڈز اور انفلوئنسرز بھی اب اپنے “پاکٹ سائزڈ” ورژن بنوا کر شیئر کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ ٹیک ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ٹرینڈ کے پیچھے کی ٹیکنالوجی اتنی اچھی نہیں جتنی نظر آتی ہے۔

باربی باکس ٹرینڈ کا طریقہ سیدھا سا ہے ۔۔ صارف چیٹ جی پی ٹی یا ایسے ہی کسی دوسرے اے آئی ٹول پر اپنی ایک تصویر اپلوڈ کرتا ہے اور اس کے بعد ایک پرامپٹ لکھتا ہے، جیسے کہ وہ کس لک میں نظر آنا چاہتے ہیں۔ باکس کیسا ہو، پس منظر، کپڑے، ایکسیسریز اور یہاں تک کہ باکس پر ٹیکسٹ یا فونٹ بھی صارف اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں۔

ٹولز پھر اس ہدایت کی بنیاد پر ایک امیج تیار کرتے ہیں جس میں صارف ایک کھلونے کی طرح پیکجڈ نظر آتا ہے۔ تاہم، کئی بار یہ امیج صحیح نہیں بنتی اور سوشل میڈیا پر ایسے مزاحیہ نتائج بھی کافی وائرل ہو رہے ہیں۔

بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کوئین میری یونیورسٹی لندن کی پروفیسر جینا نیف نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی “توانائی کی بربادی” کر رہا ہے اور اسے آپریٹ کرنے والے ڈیٹا سینٹر سالانہ 117 ممالک سے زیادہ بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، آپ کے لیے اس ٹرینڈ کے بارے میں جاننا ضروری ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی باربی ہماری نجی زندگی، ہماری ثقافت اور ہمارے سیارے کے لیے تین گنا خطرے کی مانند ہے۔ جبکہ ذاتی نوعیت کا ہونا اچھا لگ سکتا ہے، یہ نظام برانڈ اور کردار کو ایک بلینڈر میں ڈال رہے ہیں، جس سے جو بھی گڑبڑ ہوگی، اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

اس حوالے سے ٹیک ریڈار کے امریکی ایڈیٹر لانس یولینوف کہتے ہیں کہ ہر بار جب ہم اے آئی میم بناتے ہیں تو ایک درخت مر جاتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حقیقت میں AI مواد کی تخلیق کا ماحول پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔

کچھ لوگوں نے یہ بھی سوال اٹھائے ہیں کہ اے آئی ماڈلز کو بنانے کے لیے جن امیجز اور ڈیٹا کا استعمال ہوا، وہ کئی بار بغیر کریڈٹ یا رائلٹی کے اٹھائے گئے ہیں۔ اگر ہمیں اے آئی کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہے تو ہمیں اس کے لیے ٹھوس قوانین اور ذمہ داری کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان