اہم ترین

بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے سے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر جواب طلب

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر جواب طلب کرتے ہوئے متاثرین کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق پلاٹس دینے کا حکم دے دیا۔۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریونیو ایمپلائیز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کی 2880 کنال اراضی بحریہ ٹاؤن میں منتقلی سے متعلق کیس پر سماعت کی۔

بحریہ تآن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ریونیو ایمپلائیز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی 1989 میں وجود میں آئی، 2005 میں سوسائٹی ضم ہوئی، 16 کروڑ روپے میں 2882 کنال زمین خریدی گئی اور بحریہ ٹاؤن کو منتقل ہوئی۔ ہم متاثرین کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ متاثرین کو مارکیٹ ویلیو کے برابر والے ہی متبادل پلاٹس دیجیے گا، بی ایم ڈبلیو کو کلٹس سے نہ ملا دیجیے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی کو بند کرتے وقت اشتہار دیا گیا؟ کیا بولی مانگی گئی کہ اس سوسائٹی کے لیے بلڈرز سامنے آئیں؟ آپ نے خود انتخاب کرلیا کہ بحریہ ٹاون سے ہی معاہدہ کرنا ہے؟ بس حکم آ گیا تھا وزیراعلیٰ کے دربار سے کہ معاہدہ کر لو، ایک محاورہ چلتا ہے پہیے لگانے والا، آج اس کی عکاسی نظر آرہی ہے، اس معاملے میں تو شاید جیٹ انجن لگایا گیا، یہ تو فوری طور پر ہی معاہدہ ہو گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’انتخاب بحریہ ٹاون کا پہلے ہوچکا تھا، مراحل تو بعد میں آپ نے فٹ کیے، زرعی زمینوں پر ہر جگہ غیرقانونی ہاوسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں، ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹاون کیسے زرعی زمین کو کمرشل پلاٹ بنا کر فروخت کرسکتے ہیں؟ کیا ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹاؤن قانون سے بالاتر ہیں یا خود قانون بناتے ہیں؟ پورے پاکستان کی تباہی کر رہے ہیں، لوگ کھائیں گے کیا؟‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی ایبچ اے کے وکیل سے ملکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ ہمارے ادارے کی بھی کوئی بین الاقوامی ریٹنگ نہیں، ہم ہی اسے بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تین ہزار چارسوکنال زمین لے لی اور ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا، پورے پاکستان کو ایک ہاوسنگ سوسائٹی بنا دو، نہ ملک میں پیٹرول ہے نا گیہوں ہے، نہ چاول رہے گا، سب کچھ درآمد کرلو بس یہ منصوبہ بندی ہے۔ان طاقتورلوگوں کو دیکھیں، 3400 کنال پرایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا، کیا ڈی ایچ اے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا؟‘

سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ ’بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈی ایچ اے کوفروخت کی، ڈی ایچ اے نے اس زمین پر عسکری 14 بنا دیا، ڈی ایچ اے ہاوسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنائی گئی تھی، کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے کام کر رہا ہے؟ کیا یہ درست ہے؟‘

ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی، ڈی ایچ اے شہدا کے ورثا اورجنگ میں زخمیوں کو پلاٹس دیتا ہے۔ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیے کہ پیسے کمانے ہیں تو کمائیں، شہیدوں کے نام مت لیں، سیدھا سادا دھندا کر رہے ہیں۔شہدا کے نام لے کر تذلیل نہ کریں، یہ گیم ہم نے بہت بار دیکھا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا تو پوچھیں ہی مت، وہ تو پاکستان چلا رہے ہیں، ریاست بھی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑی ہے، اس کو دھندا نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں؟ یہ ہیں ہمارے سپہ سالار، پاکستان کے اصل مالک ہی یہ لوگ ہیں۔ یہ لوگ بہت طاقتور ہیں، انہوں نے سب خریدا ہوا ہے، میڈیا پر بھی ان کے خلاف خبر نہیں چلتی۔

پاکستان